فٹبال ورلڈ کپ میں پاکستانی نمائندہ

21 مئ 2014

یہ ایک اعلیٰ متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے چند سال قبل ایک خواب دیکھا اور انتھک محنت کی بدولت اس کی تعبیر حاصل کی۔

سیالکوٹ میں فٹبال بنانے کی ایک فیکٹری کے مالک خواجہ اختر نے 2006 میں جرمنی میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران ایک خواب دیکھا جو کہ آئندہ ماہ برازیل میں منعقد ہونے والے ورلڈ کپ کے موقع پر پورا ہونے جا رہا ہے۔

محمد اختر کا خواب تھا کہ وہ اپنی فیکٹری اور ملک میں بننے والے فٹبال کو دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ایونٹ یعنی فٹبال ورلڈ کپ میں استعمال ہوتا دیکھیں۔

گزشتہ سال اختر کو اطلاع ملی کہ ورلڈکپ کے لیے فٹبال بنانے کا کنٹریکٹ حاصل کرنے والے ایڈی ڈاس کے چائنیز سپلائر درکار مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں، بس پھر کیا تھا، خواجہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دنیا بھر میں چمڑے کی اشیا بنانے کے لیے مشہور سیالکوٹ میں واقع اپنے پلانٹ پر جرمن کمپنی کے حکام کو بلا لیا اور کنٹریکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں غریب موچیوں نے برطانوی راج میں فوجیوں کی پنکچر فٹبالوں کی مرمت کرکے اپنی قسمت بدلی جہاں انہوں نے ان گیندوں کی بناوٹ پر کام کرتے ہوئے فٹبال بنانے کا فن سیکھا۔

پھر یہاں پر ان کا کام اس حد تک چمکا کہ ان کی شہرت کے باعث پورے خطے کے فوجیوں نے انہی سے فٹبال خریدنا شروع کردیے لیکن تنازعات نے ان کی کمر توڑ دی۔

چائلڈ لیبر سمیت متعدد تنازعات اور ٹیکنالوجی کی تبدیلی نے متعدد مالکان کو اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر مجبور کردیا تاہم کچھ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے تبدیلیاں کیں۔

اُن دنوں کنٹریکٹ دینے والی غیر ملکی کمپنیاں معائنے کے لیے وقفے وقفے سے سیالکوٹ کے دورے کرتی رہتی تھیں۔

اختر کی فیکٹری پر لگا بڑا نشان اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ چائلڈ لیبر یہاں پر ممنوع اور یونین کے قیام کی اجازت ہے۔

یہ تو نہیں معلوم کہ پاکستان کی قومی ٹیم ورلڈ کپ فٹبال میں کب ایکشن میں نظر آئے گی مگر اس کھیل سے محبت کرنے والے پاکستانیوں کو آئندہ ماہ برازیل کے میدانوں میں سیالکوٹ میں تیار کیے گئے فٹبال ضرور نظر آئیں گے۔

خواجہ کی فیکٹری دنیا کی بڑی فٹبال لیگ جرمن بنڈس لیگا، فرنچ لیگ اور چیمپیئنز لیگ کے لیے فٹبال بناتی رہی تھی لیکن وہ کبھی بھی ورلڈ کے لیے معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔
خواجہ کی فیکٹری دنیا کی بڑی فٹبال لیگ جرمن بنڈس لیگا، فرنچ لیگ اور چیمپیئنز لیگ کے لیے فٹبال بناتی رہی تھی لیکن وہ کبھی بھی ورلڈ کے لیے معاہدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے۔
خواجہ نے بتایا کہ عام طور پر پروڈکشن لائن کی تیاری میں چھ ماہ لگتے ہیں لیکن فیکٹری کے پاس محض ایک مہینہ تھا کیونکہ کھیلوں کا سامان بنانے والی جرمن کمپنی کو جلدی تھی لہٰذا خواجہ کو گیند کے ڈیزائن سمیت تمام مراحل کی تیاری 33 دن میں کرنی تھی۔
خواجہ نے بتایا کہ عام طور پر پروڈکشن لائن کی تیاری میں چھ ماہ لگتے ہیں لیکن فیکٹری کے پاس محض ایک مہینہ تھا کیونکہ کھیلوں کا سامان بنانے والی جرمن کمپنی کو جلدی تھی لہٰذا خواجہ کو گیند کے ڈیزائن سمیت تمام مراحل کی تیاری 33 دن میں کرنی تھی۔
کمپنی کی جانب سے ماضی میں تھرمل بانڈنگ کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کا اس موقع پر انتہائی فائدہ ہوا کیونکہ ورلڈ کہ کے لیے گیند کی تیاری کے لیے مقرر سخت معیارات کے مطابق گیند کا اس ٹیکنالوجی سے تیار کیا جانا ضروری ہے۔
کمپنی کی جانب سے ماضی میں تھرمل بانڈنگ کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کا اس موقع پر انتہائی فائدہ ہوا کیونکہ ورلڈ کہ کے لیے گیند کی تیاری کے لیے مقرر سخت معیارات کے مطابق گیند کا اس ٹیکنالوجی سے تیار کیا جانا ضروری ہے۔
یہاں کام کرنے والوں نے رائٹرز کو بتایا کہ یہاں کی صورتحال بہت اچھی ہے اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 10 ہزار ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی سیکورٹی، لائف انشورنس اور ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ احطے میں ہسپتال کی سہولت بھی میسر ہے۔
یہاں کام کرنے والوں نے رائٹرز کو بتایا کہ یہاں کی صورتحال بہت اچھی ہے اور مزدوروں کی کم ازکم اجرت 10 ہزار ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی سیکورٹی، لائف انشورنس اور ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ احطے میں ہسپتال کی سہولت بھی میسر ہے۔
خواجہ کے بڑے بیٹے حسن مسعود خواجہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان حکام نے کہا کہ آپ کا سامان پتھروں کے دور کا ہے تاہم جیسے ہی وہ گئے میرے والد نے ایک میٹنگ بلاتے ہوئے کہا کہ یہی موقع ہے، اگر ہم انہیں یہ ثابت نہ کر سکے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں تو پھر کبھی بھی دوبارہ موقع نہیں مل سکے گا۔
خواجہ کے بڑے بیٹے حسن مسعود خواجہ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ان حکام نے کہا کہ آپ کا سامان پتھروں کے دور کا ہے تاہم جیسے ہی وہ گئے میرے والد نے ایک میٹنگ بلاتے ہوئے کہا کہ یہی موقع ہے، اگر ہم انہیں یہ ثابت نہ کر سکے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں تو پھر کبھی بھی دوبارہ موقع نہیں مل سکے گا۔
یہاں پاکستانی روایت کے برخلاف زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے جن میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کام کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔
یہاں پاکستانی روایت کے برخلاف زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے جن میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کام کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔
سیالکوٹ میں قائم کمپنی کے سی ای  او خواجہ اختر نے گزشتہ 40 سالوں میں اپنے خاندانی کاروبار کو  آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مزدوروں کی تعداد 50 سے 1400 کر لی ہے۔
سیالکوٹ میں قائم کمپنی کے سی ای او خواجہ اختر نے گزشتہ 40 سالوں میں اپنے خاندانی کاروبار کو آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مزدوروں کی تعداد 50 سے 1400 کر لی ہے۔